Tuesday 1 October 2013


    پیارے بھائیو! دُنیا چند روزہ ہے اسکی راحت و مُصیبت سب فنا ہونے والی ہے یہاں کی دوستی اور دشمنی ختم ہونے والی ہے دُنیاسے چلے جانے کے بعد بڑے سے بڑارفیق و شفیق بھی کام آنے والا نہیں بعد مرنے کے صرف خدا عزوجل اور اس کے رسول حضور سید نامحمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی کام آنے والے ہیں سفر آخرت کی پہلی منزل قبر ہے اس میں منکر نکیر آکرسوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟اور تیرادین کیا ہے ؟اسی کے ساتھ نبی کریم رؤف رحیم حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متعلق مردے سے دریافت کرتے ہیں ماتقول فی ھذا الرجل یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف اِشارہ کرکے پوچھتے ہیں کہ ان کی شان میں کیا کہتاہے اگراس شخص کونبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم سے عقیدت ومحبّت ہے تو جواب دیتا ہے کہ یہ تو ہمارے آقامولی اﷲکے محبوب حضور محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں ان پر تو ہماری عزّت وآبروجان و مال سب قربان، اس شخص کیلئے نجات ہے اور اگر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ذرہ برابر کدورت ہے ،دل میں آپ کی عزّت ومحبت نہیں ہے ،جواب نہیں دے سکے گا ۔یہی کہے گا میں نہیں جانتا لوگ جوکہتے تھے میں بھی کہتا تھا اس پر سخت عذاب اور ذلّت کی مار(رسوا ئی ہی رسوا ئی)ہے العیاذ باﷲ تعالے۔
    معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبّت مدار ایمان و مدار نجات(یعنی ایمان ونجات کا انحصار حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی محبت پر ہے) ہے مگر یہ تو ہرمسلمان بڑے زور سے دعوے کے ساتھ کہتاہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبّت رکھتے ہیں آپ کی عظمت ہمارے دل میں ہے لیکن ہر دعوے کیلئے دلیل چاہے اور ہرکامیابی کے لئے امتحان ہوتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت کا دعوی کرنے والوں کا یہ امتحان ہے جن لوگوں نے نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی شان اقدس میں گستاخیاں اور بے ادبیاں کی ہیں ان سے اپناتعلق قطع کرلیں ایسے لوگوں سے نفرت اور بیزاری ظاہر کریں اگر چہ وہ ماں باپ اوراولاد ہی کیوں نہ ہوں ۔بڑے سے بڑے مولانا پیر و استاد ہی کیوں نہ ہوں لیکن جب اُنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں بے ادبی کی توایمان والے کا ان سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔اگر کوئی شخص ان کی بے ادبیوں پر مطلع ہوجانے کے بعد پھربھی ان کی عزّت ان کااحترام کرے اور اپنی رشتہ داری یا انکی شخصیت اور مولویت کے لحاظ سے نفرت وبیزاری ظاہر نہ کرے وہ شخص اس امتحان میں ناکامیاب ہے اس شخص کو حقیقتاً حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت نہیں صرف زبانی دعوی ہے اگر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت اور آپ کی سچی عظمت ہوتی تو ایسے لوگوں کی عزت وعظمت ،ان سے میل و محبت کے کیامعنی ؟خوب یادر کھو پیر اور استاد ،مولوی اورعالم کی جوعزت و وقعت کی جاتی ہے اس کی محض یہی وجہ ہے کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تعلق اورنسبت رکھنے والا ہے مگر جب اس نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کی پھر اس کی کیسی عزت ؟ اور اس سے کیسا تعلق اس نے توخود حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اپنا تعلق قطع کرلیا پھر مسلمان اس سے اپناتعلق کیونکر باقی رکھے گا ۔
    اے مسلمان تیرا فرض ہے کہ اپنے آقا و مولامحبوب خد اصلی اﷲتعالی علیہ وسلم کی عزّت و عظمت پر مرمٹے ان کی محبت میں اپناجا ن ومال عزّت وآبروقربان کرنے کو اپنا ایمانی فرض سمجھے اور ان کے چاہنے والوں سے محبّت ان کے دشمنوں سے عداوت لازمی اور ضروری جانے ۔غور کر کسی کے باپ کوگالی دیجائے اور بیٹے کو سن کر حرارت نہ آئے(۱) تو وہ صحیح معنی میں اپنے باپ کا بیٹا نہیں اسی طرح اگر نبی کی شان میں گستاخی ہو اورامتی سُن کر خاموش ہوجائے اس گستاخ سے نفرت و بیزاری ظاہر نہ کرے تو یہ اُمتی بھی یقیناصحیح معنی میں اُمتی نہیں بلکہ ایک زبانی دعوی کرتا ہے جو ہرگز قابل قبول نہیں اس رسالہ میں بعض لوگوں کے اقوال گستاخانہ ضمناً آگئے ہیں مسلمان ٹھنڈے دل سے پڑھیں اور فیصلہ کریں اور اپنی صداقت ایمانی کے ساتھ انصاف کریں کہ ایسے لوگوں سے مسلمانوں کوکیا تعلق رکھنا چاہیئے ۔ بلارعایت اور بغیر طرفداری کے کہنا اور یہ بات بھی یادرکھنا کہ اگر کسی کی شخصیت و مولویت کالحاظ کرتے ہوئے اس کی رعایت کی تونبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مقابلہ ہے نبی کے مقابلہ میں گستاخ کی طرفداری اوررعایت تمہارے کام نہیں آسکتی ۔

وصلی اﷲتعالی وسلم علی خیر خلقہ سید نا محمد و الہ واصحابہ اجمعین برحمتک یاارحم الراحمین ۔( اور اللہ عزوجل اپنی مخلوق میں سب سے بہتر ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر رحمت بھیجے اور ان کی آل پر اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان پر ، اے تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر مہربان )
۷۸۶
نَحْمَدُہ' وَنُصَلّیِ عَلیٰ حَبِیْبِہَ الکرِیْمْ ط

    مرسلہ از ملا عبدالمجید پیش امام جامع مسجد ،حکیم عبدالمجید ،حافظ عبدالمجید، محمد صدیق نمبردار ،نذیر احمد چودھری ساکن قصبہ بھوجپو رضلع مراد آباد ۔
    مکرم و معظم جناب مولوی صاحب زاد کرمَہ(اللہ تعالی ان کی بزرگی میں اضافہ فرمائے) اسلام علیکم ورحمۃ اﷲ ہم لوگ اب تک علماء دیوبند کے متعلق یہی سُنا کر تے تھے کہ وہ بہت بڑے پابند شریعت متبع سُنّت(سنت پر عمل کرنے والے ) متقی پر ہیز گار ہیں شرک و بدعت سے خود بھی بہت سخت اجتناب کرتے ہیں اور دوسروں کوبھی شرک و بدعت سے بچانے کے لئے تبلیغ و ہدایت کرتے ہیں نیز ان کے ظاہری طرزعمل سے بھی ان کا تقدس(بزرگی) معلوم ہوتا ہے اپنے وعظوں اور تقریروں میں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی تعریف بھی کرتے ہیں ان سب باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ علمائے دیوبند بڑے خوش عقیدہ (اچھے عقیدہ والے)نہایت متبع سُنّت عامل شریعت اور حضور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شیدائی اور فدائی اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت رکھنے والے ہیں ۔
    مگر زید کہتا ہے کہ علماء دیوبند کی یہ سب باتیں نمائشی ہیں ان کا ظاہری طرز عمل جیسا بھی ہو لیکن ان کے عقائد ضرور خلاف حق اور خلاف شرع اور محمد بن عبدا لوہاب نجدی(یہ وھابی فرقے کا بانی تھا ۔ جس نے تمام عرب خصوصا مکہ اور مدینہ میں شدید فتنے پھیلائے ۔ علماء کرام کو قتل کیا۔ صحابہ کرام، ائمہ ،علماء وشہداء علیہم الرضوان کی قبریں کھودڈالیں ۔ روضہ سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام صنم اکبر یعنی بڑا بت رکھا( معاذ اللہ )۔ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے خارجی بتایا ۔ (ملخص از بہار شریعت حصہ اول ایمان وکفر کابیان )) سے ملتے جلتے ہیں وہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعریف محض اس لئے کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ رکھیں مسلمانوں میں اپنا اعزازو اقتدار قائم کریں ورنہ حقیقت میں ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت ہرگز نہیں علماء دیوبند نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان اقدس میں سخت گستاخیاں کی ہیں اپنی کتابوں میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیلئے کچھ نامناسب الفاظ استعمال کئے ہیں چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم کو پاگلوں جانوروں کے علم سے تشبیہ دی ہے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم کو شیطان مردود کے علم سے کم بتایا ہے اُمتی کے نبی سے عمل میں بڑھ جانے کے قائل ہیں اسی قسم کے ان کے بہت سے اقوال انہیں کی کتابوں میں موجود ہیں جن کا کفر ہونا آفتاب کی طرح روشن ہے اگر ان کو واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت ہوتی تو ایسی گندی عبارتیں اپنی کتابوں میں ہرگز نہیں لکھتے اور اگر غلطی سے ایسا ہوا بھی تھا تو توبہ کرلیتے مگرنہ توبہ کی ۔ نہ وہ گندی عبارتیں اپنی کتابوں سے دور کیں ۔ بلکہ مدّتوں سے چھاپ چھاپ کر اشاعت کررہے ہیں ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا یہ ظاہری طرزعمل اور اپنے وعظوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعریف کرنا محض نمائشی اور کسی غر ض پر مبنی ہے اگر حقیقی محبت ہوتی تو ایسی کتابوں کو بجائے چھپوانے اور اشاعت کرنے کے جلادیتے اور توبہ کرلیتے زید کے اس بیان سے ہمیں سخت حیرت اور نہایت تعجب ہے ۔ ہم علماء دیوبند کے ظاہری تقدس کو دیکھتے ہیں اور انکی باتیں سنتے ہیں تویہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسی باتیں اپنی کتابوں میں ہرگز نہیں لکھ سکتے مگر زید باوجود معتبر اور دیانت دار ہونے کے کہتا ہے کہ جوباتیں میں نے بیان کی ہیں اگر وہ علماء دیوبندکی کتابوں میں نہ ہوں تو میں سخت مجرم اور انتہائی سزا کا مستحق بلکہ ان باتوں کو غلط ثابت کردینے پر پانچ سو روپیہ انعام دینے کا حتمی وعدہ کرتاہے ، لہذا اس کو بھی جھوٹا نہیں کہاجاسکتا زید نے جوجوباتیں علماء دیوبند کے متعلق بیان کی ہیں اگر وہ واقعی ان کی کتابوں میں ہیں تو ہم لوگ ضرور ان سے قطع تعلق رکھیں گے اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس بات پر آمادہ کریں گے اور اگر زید کایہ بیان غلط ہے اور یہ باتیں علماء دیوبندکی کتابوں میں نہیں تو زید کو برادری اور پنچایت(صلاح ومشورہ کی کمیٹی) کی روسے سخت سزا دیں گے اور اس کے وعدہ کے مطابق پانچ سو روپیہ بھی وصول کریں گے لہذا اسکی تحقیق کے لئے زید کے بیان سے تیس/۳۰ سوال قائم کرکے حاضر خدمت کرتے ہیں امیدہے کہ ہر سوال کاجواب نمبر وار علماء دیوبند ہی کی کتابوں کے حوالہ سے عام فہم تحریر فرمایاجائے تاکہ مسلمان بہ آسانی سمجھ کر صحیح نتیجہ پر پہنچ سکیں ۔

الجواب :

حامدا ﷲرب العٰلمین ومصلیا علی حبیبہ سید المرسلین (تمام جہانوں کے پروردگار کی تعریف کرتے اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جو تمام نبیوں کے سردار ہیں درود پڑھتے ہوئے (میں اپنی گفتگو کا آغاز کرتا ہوں ))

مکرمان بندہ وعَلیْکُمْ وَرَحْمۃُ اﷲ آپ حضرات کا مرسلہ خط جو زید کے بیان اورتیس/۳۰ سوالات پر مشتمل ہے وصول ہوا۔ حسب فرمائش ہر سوال کا جواب علماء دیوبند ہی کے معتبر اقوال سے دیتا ہوں اور ہر ایک کا حوالہ نمبر وار ا نہیں کی کتابوں سے درج کرتا ہوں لیکن پہلے اجمالاً اتنا بتادوں کہ زید کا بیان بالکل صحیح ہے واقعی علمائے دیوبند کی کتابوں میں ایسے بہت سے اقوال ہیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی توہین ثابت ہے ان میں سے بعض عبارتیں جوابات کے حوالوں میں بھی آئیں گی۔ جو اس ثبوت کے لئے کافی ہیں ۔ مولیٰ تعالےٰ مسلمانوں کوتوفیق دے کہ وہ اپنے نبی حضور سید نا محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عزت و عظمت کو پہچانیں اور سچّے دل سے ان کی تعظیم وتوقیر کریں ۔

     وَما توفیقي اِلاباﷲوھوحسبی ونعم الوکیل۔ (توفیق تو صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہے وہ مجھے کافی ہے اور وہ کیاہی بہتر کار ساز ہے ۔)

سوال نمبر ۱۔ کیا علماء دیوبند کے نزدیک خدا کے سواکوئی اور بھی مربی خلائق(تمام مخلوق کی پرورش کرنے والا) ہے اگر ان کے عقیدہ میں سوائے خدا کے کوئی دوسرا بھی مربی خلائق ہے تو و ہ کون ہے ۔
جواب ۔ ہاں علماء دیوبند کے نزدیک مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی مربی خلائق ہیں جیساکہ مولوی محمود حسن صاحب صد رمدرس مدرسہ دیوبند فرماتے ہیں
حوالہ ۔مرثیہ(وہ نظم جس میں مرنے والے کے اوصاف بیان کئے گئے ہوں ۔) رشید احمد مصنفہ مولوی محمود حسن صفحہ ۱۲ پر ہے ۔
خدا ان کا مربی وہ مربی تھے خلائق کے مرے مولا مرے ہادی تھے بیشک شیخ ربّانی
تنبیہ ۔ اس شعر میں مولوی محمود حسن صاحب نے مولوی رشید احمد صاحب کو مربی خلائق لکھا ہے جو رب العالمین کے ہم معنی ہے شاید ضرورت شعری کی وجہ سے رب العالمین نہیں لائے یہ ہے پیشوائے دیوبند کی عقیدت مندی کتنے کھلے لفظوں میں اپنے پیر کو ساری مخلوق کا پالنے والا کہہ رہے ہیں واقعی پیرپرستی اسی کا نام ہے
سوال نمبر۲۔ وہ مسیحا(حضرت عیسی علیہ السلام کا لقب جو بطور معجزہ مردے کو زندہ کردیتے تھے ۔)کون ہے جس نے مردے بھی جلائے اور زندوں کو بھی مرنے سے بچالیا؟کیا علمائے دیوبند میں کوئی ایسا مسیحا ہوا ہے ؟
جواب ۔ ہاں وہ مسیحا اہل دیوبند کے نزدیک مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ہیں چنانچہ مولوی دیوبندی کی شان ارشاد فرماتے ہیں اور پکار کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کواپنے پیر کی مسیحائی(حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزے والی طاقت۔ حیات بخشنا۔) دکھاتے ہیں ۔   
     حوالہ ۔ مرثیہ رشید احمد مصنفہ محمود حسن صفحہ ۳۳

مُردوں کوزندہ کیازندوں کو مرنے نہ دیا            ،،،،،،،،،، اس مسیحائی کو دیکھیں ذری(۱) ا بن مریم
اہل زبان حضرات ذرا دیوبندیوں کی اُردوملاخطہ کریں ۔حیرت ہوتی ہے کہ علمائے دیوبند کی زبان ذاتی کا یہ عالم ہے ۔ اور حوصلہ ہے سرکاردوجہاں عالم مایکون وماکان  کو اردو زبان سکھانے کا ۔ العیاذ باﷲ تعالی
تنبیہ ۔ واقعی دیوبندیوں کے نزدیک مولوی رشید احمد صاحب کی مسیحائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہت بڑھ گئی کیوں کہ جو کام عیسےٰ علیہ السلام بھی نہ کرسکے وہ مولوی رشید احمد صاحب نے کرکے دکھا دیا۔ مردے جلانے میں توبرابر ہی تھے مگرزندوں کوموت سے بچالیا۔ اس میں ضرورعیسیٰ علیہ السلام سے بڑھ گئے جب ہی تو عیسیٰ علیہ السلام کوان کی مسیحائی دکھائی جاتی ہے اگر مولوی ریشد احمد صاحب کی مسیحائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھی ہوئی نہ جانتے تویہ نہ کہتے کہ اس مسیحائی کودیکھیں ذرا ابن مریم۔
    مسلمانو!انصاف کروکیا اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین نہیں ہے ! ہے اور ضرور ہے ۔
سوال نمبر ۳۔ کیاکسی انسان کے کالے کالے بند ے بھی یوسف ثانی ہیں علماء دیوبند کے معتبر اقوال سے جواب دیجئے ۔
جواب ۔ مولوی رشید احمد صاحب کے کالے کالے بندے یوسف ثانی ہیں چنانچہ ان کے خلیفہ مولوی محمودحسن دیوبندی فرماتے ہیں ۔
حوالہ ۔ مرثیہ رشید احمد صاحب صفحہ ۱۱

قبولیت اسے کہتے ہیں مقبول ایسے ہوتے ہیں  ،،،،،،،،،،عبید (۲) سُود کا انکے لقب ہے یوسف ثانی

عبیدؔجمع ہے عبد کی ۔ عبد کا معنی بندہ۔سُوْد جمع ہے اَسْودْ کی ۔ اَسوَدْ کامعنی کالا عَبِیْد سُوْد کامعنی کالے کالے بندے اس مصرعہ کاترجمہ یہ ہے ان کے یعنی رشید احمد گنگوہی کے کالے کالے بندوں کالقب یوسف ثانی ہے ۔معاذ اﷲتعالی قطع نظر اس امر سے کہ گنگوہی صاحب کے جن کالے کالے بندوں کالقب یوسف ثانی تھا وہ کون کون لوگ تھے ان کانام کیا تھا کہاں رہتے تھے وہ بندگان گنگوہی کس کی صحبت میں رہنے کی برکت سے کالے ہوگئے تھے کہنا یہ ہے کہ دیوبندی مذہب میں جب عبدالنبی نام رکھنا شرک وکفر ہے جیسا کہ بہشتی زیورحصہ اول صفحہ ۴۵ میں مولوی اشرف علی تھانوی نے لکھاہے توپھر عبد الکنکوہی کہنا کیوں کرجائز ہے جیسا کہ مولوی محمود حسن دیوبندی نے اس مصرعہ میں کہا ہے سچ کہا ہے کہ دیوبندیوں کوتوصرف مسلمانوں کے پیارے نبی سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے بغض و جلن ہے ۔ العیاذ باﷲتعالے
تنبیہ:۔ کیا خوب کہا ۔ خدائے تعالیٰ کے اعلیٰ درجہ کے حسین وجمیل بندہ یوسف علیہ السلام ہیں مگر مولوی رشید احمد صاحب کے کالے کالے ہی بندے یوسف ثانی بنادیے گورے گورے بندوں کاکیا ٹھکانا واقعی مقبولیت اسی کانام ہے ۔ مسلمانو! غور کروگے تومعلوم ہوجائے گا اس ایک ہی شعر میں خدا عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم دونوں پر ہاتھ صاف (اللہ عزوجل اور اس کے رسول علیہ السلام دونوں کی گستاخی سے اپنے ہاتھوں کو رنگ لیا) کردیا۔
سوال نمبر ۴۔ علمائے دیوبند کے نزدیک بانی اسلام کاثانی کون ہے ؟
جواب۔ علمائے دیوبند مولوی رشید احمد صاحب کوبانی اسلام (خدا ) کاثانی جانتے ہیں
جیساکہ مولوی محمود حسن صاحب نے لکھا ہے ۔
حوالہ ۔مرثیہ رشید احمد صفحہ ۶۔
زبان پر اہل ِ ہو ا(نیک لوگ) کی ہے کیوں اُغل ہُبل(چیخ وپکار) شاید اٹھاعالم سے کوئی بانیء اسلام کا ثانی
سوال نمبر ۵۔ کیا عارف لوگ کعبہ شریف میں پہنچ کر کسی دوسری جگہ کوتلاش کیاکرتے ہیں وہ کونسی جگہ ہے۔کیاعلمائے دیوبند نے کوئی ایسی جگہ بتائی ہے ؟
جواب ۔ ہاں عارف لوگ (اللہ کے ولی)کعبہ معظمہ جاکر گنگوہ(انڈیا کا ایک علاقہ) تلاش کیا کرتے ہیں جیساکہ مولوی محمود حسن صاحب دیوبندی فرماتے ہیں ۔
حوالہ ۔ مرثیہ رشید احمد صفحہ ۱۳
پھرے تھے کعبہ میں بھی پوچھتے گنگوہ کاراستہ
         جو رکھتے اپنے سینوں میں تھے ذوق و شوق عرفانی

تنبیہ ۔ کعبہ معظمہ جوبیت اﷲخانہ خداہے اس میں پہنچ کربھی گنگوہ کی ہی دھن لگی ہوئی
ہے اسے دیوبندی عرفان کا نشہ اور گنگوہی معرفت کاخمارنہ کہاجائے تواور کیاکہا جائے ۔
سوال نمبر ۶۔دونوں جہان کی حاجتیں کس سے مانگیں ۔ روحانی جسمانی حاجتوں کاقبلہ کون ہے؟دیوبندی مذہب پر جواب دیا جائے ۔
جواب ۔ روحانی اور جسمانی سب حاجتوں کا قبلہ دیوبندی مولوی کے نزدیک مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ہیں۔ ساری حاجتیں انہیں سے طلب کرنا چاہے ان کے سوا کوئی حاجت روا نہیں جیساکہ مولوی محمود حسن صاحب دیوبندی فرماتے ہیں ۔ دیکھو ۔
حوالہ ۔ مرثیہ رشید احمد صفحہ ۱۰۔
حوائج (حاجت کی جمع ۔ ضروریات)دین ودنیا کے کہاں لیجائیں ہم یارب گیا وہ قبلہ حاجات روحانی وجسمانی
فا ئدہ: ۔ مولوی رشید احمد صاحب نے غیر اﷲسے مددمانگنے کو شرک بتایاہے ۔ فتاوی رشید یہ حصّہ سوم صفحہ ۶پر ہے سوغیر اﷲسے مددمانگنا اگرچہ ولی ہویا نبی شرک ہے او ر مولوی محمود حسن صاحب دونوں جہاں کی حاجتیں انہیں سے مانگ رہے ہیں قبلہ حاجات انہیں کوکہہ رہے ہیں لہٰذا فتاوٰے رشیدیہ کہ حکم سے مولوی محمود حسن صاحب مشرک ہوئے او ر اگر مولوی محمود حسن صاحب کو مُوحّد کہاجائے تو مولوی رشید احمدصاحب کوضرور خدا کہنا پڑے گا۔بولوکیاکہتے ہو؟
سوال نمبر ۷۔ سارے جہان کا مخدوم (بزرگ ۔ آقا ۔ جس کی خدمت کی جائے۔)کون ہے اور سارا عالم کس کی اطاعت کرتا ہے۔علماء دیوبند کے مذہب پر جواب دیاجائے ۔
جواب ۔سارے عالم کے مخدوم دیوبندیوں کے نزدیک مولوی رشید احمد صاحب گنکوہی ہیں
اورساراعالم انہیں کی اطاعت کرتا ہے حوالہ ملاحظہ ہو۔
حوالہ ۔ مرثیہ رشید احمد مصنفہ مولوی محمود حسن صاحب کے پہلے ہی صفحہ پر ہے ۔
مخدوم الکل مطاع العالم جناب مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ۔
سوال نمبر ۸ ۔ وہ کون حاکم ہے جس کا کوئی بھی حکم علمائے دیوبند کے نزدیک ٹل نہیں سکتا اور اس کا ہر حکم قضائے مبرم ْ (جس کی تبدیلی ناممکن ہو ۔ تقدیر کی ایک قسم)ہے ۔
جواب۔ ایسے حاکم توصرف مولوی رشید احمد صاحب ہی ہیں ا ن کاکوئی حکم بھی نہیں ٹلا اس لئے کہ ان کاہر حکم قضائے مبرم کی تلوار ہے ۔
حوالہ ۔ مرثیہ رشید احمد صفحہ ۳۱

نہ رکا پرنہ رکا پرنہ رکا پرنہ رکا     اس کا جوحکم تھا ، تھا سیف قضائے مُبرم

فائدہ ۔ واقعی کوئی حکم نہیں ٹلا ۔ او ر ٹلتا کیسے مربی خلائق تھے کوئی مذاق تھے اور عقید تمند لوگوں نے کسی حکم کو ٹلنے بھی نہ دیا اس سے زیادہ عقید تمند ی اور کیا ہوگی کہ جب مولوی رشید احمد صاحب نے کوّے کھانے کاحکم دیا تو علمائے دیوبند نے یہ سمجھ کہ کہ مربی خلائق کاحکم ہے آنکھ بند کرکے تسلیم کرلیا اور کوّے کھانے لگے۔
سوال نمبر ۹۔ وہ کون ہے جس کی غلامی کا داغ دیوبندی مذہب میں مسلمانی کاتمغہ (سند)ہے۔
جواب ۔ وہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ہیں۔ انہیں کی غلامی مسلمانی کا تمغہ ہے چنانچہ مولوی محمود حسن صاحب فرماتے ہیں ۔
حوالہ ۔ مرثیہ رشیداحمد صفحہ ۶۔

زمانہ نے دیا اسلام کوداغ اسکی فرقت کا       کہ تھا داغ غلامی جس کا تمنائے مسلمانی

تنبیہ ۔ مولوی رشید احمد صاحب کی غلامی کا داغ جب مسلمانی کا تمعہ ہو ا تو جوان کا غلام بنا اسی کویہ تمغہ ملااور جس نے انکی غلامی نہ کی اس تمغہ سے محروم رہا ۔ لہٰذا دیوبندی یاتو تمام صحابہ و تابعین وائمہ مجتہدین واولیاء کاملین کو مولوی رشید احمد صاحب کاغلام مانتے ہوں گے یا ان تمام مقبولان خدا کو مسلمانی کے تمغے سے خالی جانتے ہیں ۔
سوال نمبر ۱۰ ۔ کیاکوئی ایسا شخص بھی ہواہے جو اکیلا ہی صدیق اور فاروق دونوں ہو ۔
جواب ۔ہاں مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی صدیق اور فاروق دونوں تھے چنانچہ مولوی محمود حسن صاحب ان کی شان میں تحریر فرماتے ہیں ۔
حوالہ ۔ مرثیہ رشیداحمد صفحہ ۱۶
وہ تھے صدیق اور فاروق پھر کہیے عجب کیاہے،،،،،،،،،شہادت نے تہجد میں قدم بوسی کی گرٹھانی

فَائدہ

ان دس سوالوں کے جوابات مولوی محمود حسن صاحب صدر مدرس مدرسہ دیوبند کی کتاب مرثیہ رشید احمد کے حوالہ سے لکھے ہیں ۔ ایک حوالہ بھی غلط ثابت کردینے پر مبلغ پانچ سوروپیہ انعام ۔ مسلمانو! ذرا تعصب اور ہٹ دھرمی کو چھوڑکر غور سے پڑ ھو اور نظر انصاف سے دیکھو تو حق و باطل آفتاب سے زیادہ روشن ہوجائے گا۔ معلوم ہوجائے گا کہ مشرک اور بدعتی کون ہے دیکھو علمائے دیوبند اپنے پیروں سے کیسی عقیدت رکھتے ہیں اپنے پیروں کومربی خلائق مانتے ہیں ''بانی اسلام کا ثانی ''جانتے ہیں ۔ یعنی دوسرا خدا ''مسیحائی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھاتے ہیں'' کعبہ میں پہنچ کر بھی پیر ہی کا ''درگنگوہ'' تلاش کرتے ہیں ''بلاتخصیص سارے جہان کو ان کا خادم اور مطیع جانتے ہیں ان کی حکومت مثل خدا مانتے ہیں ''اپنے پیر کی غلامی کومسلمانی کا تمغہ بتاتے ہیں '' مسلمانو! لِلِّٰہ انصاف کرو اور سچ سچ بتاؤ اور بلارعایت کہو کہ جو لوگ اپنے پیروں سے ایسا عقیدہ رکھتے ہیں وہ حق پرست یاپیر پرست ،مُوحّد(اللہ تعالی کو ایک ماننے والے۔) ہیں یامشرک۔
سوال نمبر ۱۱۔ کیا رحمۃ للعالمین نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی ہیں یا علمائے دیوبند کے نزدیک امتی کو بھی رحمۃللعالمین کہہ سکتے ہیں ۔
جواب ۔رحمۃللعالمین حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صفت مخصوص نہیں بلکہ علما ء ربانین (اولیاء کرام) کوبھی رحمۃللعالمین کہنا جائز ہے چنانچہ علماء دیوبند کے پیشوا مولوی رشید احمد صاحب اپنے فتاوے ٰ میں تحریر فرماتے ہیں ، ملاحظہ ہو ۔
''رحمۃ اللعالمین ''صفت خاصہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نہیں ہے بلکہ دیگر اولیا ء وانبیاء اور علمائے ربانین بھی موجب رحمتِ عالم ہوتے ہیں اگر چہ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب میں اعلے ٰ ہیں ۔ لہٰذا اگر دوسرے پر اس لفظ کو بتاویل بول دیوے تو جائز ہے فقط بندہ رشید احمد گنگوہی عفی عنہ ۔
فا ئدہ: ۔ علمائے دیوبند کے نزدیک چونکہ مولوی رشید احمد صاحب عالم ربّانی ہیں اور ان کا حکم ہے کہ عالم ربانی کو رحمۃللعالمین کہنا درست ہے لہٰذا علمائے دیوبند کے نزدیک مولوی رشید احمد رحمۃللعالمین ہوئے اسی لئے مولوی رشید احمد صاحب نے اپنی رحمت کے بہت سے جلوے دکھائے جن میں سے ایک خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے وہ یہ کہ آپ نے کوّا کھانے پر ثواب مقرّر کردیا ہے ، یہ بے پیسہ اور بغیر دام ،مفت کا سیاہ مرغ مولوی رشید احمد صاحب نے حلال فرما کر اس کے کھانے والے کے لئے ثواب بھی مقررکردیا ہے اس سے زیادہ دیوبندیوں کے لئے اور کیا رحمت ہوگی کہ پیسہ لگے نہ کوڑی مفت ہی میں سالن کاسالن اور ثواب کاثواب ۔ دیکھوسوال نمبر ۲۰۔
سوال نمبر ۱۲ ۔ علمائے دیوبند کے نزدیک امام حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہ کامرثیہ لکھنا کیسا ہے ۔
جواب۔ لکھنا تو درکنا ر۔ اگر لکھا ہوابھی مل جائے تو جلا دینا یا زمین میں دفن کردینا ضروری ہے حوالہ ملاحظہ ہو۔    حوالہ ۔فتاویٰ رشیدیہ حصہ سوم صفحہ۱۰۳۔
سوال مرثیہ جو تعزیہ وغیرہ میں شہید انِ کربلا کے پڑھتے ہیں اگر کسی شخص کے پاس ہوں، وہ دور کرنا چاہے تو ان کا جلادینا مناسب ہے یافروخت کردینا ۔ فقط
الجواب ۔ان کا جلانا دینا یا زمین میں دفن کردینا ضروری ہے ۔فقط
تنبیہ: ۔ مسلمانو! ذرا غور کرو امام حسین رضی اﷲتعالے ٰ عنہ کے مرثیہ کو توجلا نا اور زمین میں دفن کرنا ضروری ہے مگرخود مولوی رشید احمد صاحب کا مرثیہ لکھنا درست ہے ۔
سوال نمبر ۱۳۔ علمائے دیوبند کا مرثیہ لکھنا کیسا ہے اور اگر لکھا ہوا مل جائے تو شہید ا ن کربلا کے مرثیے کی طرح اسکوبھی جلا دینا اور زمین میں دفن کرناضروری ہے یا نہیں ۔
جواب ۔علماء دیوبند کا مرثیہ لکھنا بلاکراہت جائزو درست ہے شہیدان کربلا رضی اﷲتعالیٰ عنہم کے مرثیہ کی طرح اس کو جلادینا زمین میں دفن کرنا نہیں چاہے ؟
حوالہ ۔کیونکہ دیوبندیوں کے پیشوا(رہنما) مولوی محمود حسن صاحب نے پیر مولوی رشید احمد صاحب کا مرثیہ لکھا اور چھاپ کر شائع کیا ۔ مدت دراز سے ہزاروں کی تعداد میں چھپ کر فروخت ہورہا ہے اور آج تک کسی دیوبندی مولوی نے رشید احمد کے مرثیہ کوجلانے یازمین میں دفن کرنے کا فتویٰ شائع نہیں کیا ۔ لہٰذا ثابت ہوا دیوبندیوں کے نزدیک علمائے دیوبند کا مرثیہ لکھنا بلاکراہت درست اور جائز ہے شہیدان کربلا کے مرثیے کی طرح اس کوجلانے یا دفن کردینے کاحکم نہیں ۔ عقید ت مندی اسی کانام ہے ۔
سوال نمبر ۱۴ ۔ ما ہ محرم میں ذکر شہادت امام حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہ صحیح روایت کے ساتھ بیان کرنا ۔سبیل لگانا چندہ سبیل میں دینا ۔ شربت یا دودھ بچوں کوپلانا درست ہے یانہیں دیوبندی مذہب میں ان سب باتوں کاکیاحکم ہے ۔
جواب ۔ صحیح روایت کے ساتھ بھی محرم میں ذکرشہادت حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہ ذکر کرنادیوبندی مذہب میں حرام ہے سبیل لگانا ،، چندہ سبیل میں دینا ،بچوں کودودھ پلانا سب حرام ہے جیسا کہ مولوی رشید احمد صاحب فرماتے ہیں فتاویٰ رشیدیہ حصہ سوم صفحہ ۱۱۴۔
تنبیہ:۔ مسلمانو!ذار غور سے سنو یہ توسب حرام !مگر ہولی دیوالی(ہولی -ہندوں کا ایک تہوار جو موسم بہار میں منایا جاتا ہے ۔دیوالی ۔ہندوؤں ہی کا ایک تہوا ر جب لکشمی بت کی پوجا کرتے ہیں اور خوب روشنی کرتے ہیں) کوجوکفار کے آتش پرستی کے دن ہیں وہ ان کی خوشی میں جو چیز یں مسلمانوں کے یہاں بھیجیں وہ سب درست ہے۔ملاحظہ ہو
سوال نمبر ۱۵۔ ہندو اپنے تہوار ہولی یا دیوالی(خوشی کادن ۔مذہبی تقریب منانے کا دن) وغیرہ میں پوری یا اور کچھ کھانا بطور تحفہ مسلمانوں کودیں تو اس کالینا اور کھانا درست ہے یا محرم کے شربت اور دودھ وغیرہ کی طرح علمائے دیوبند کے نزدیک یہ بھی حرام ہے۔
جواب ۔ہولی اور دیوالی کا یہ تحفہ ہندؤں سے لینا اور اس کاکھانا درست ہے محرم کے شربت اور دودھ کی طرح علمائے دیوبند کے نزدیک یہ حرام نہیں ۔ فتاویٰ رشیدیہ میں اس کودرست لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
حوالہ ۔فتاویٰ رشیدیہ حصہ دوم صفحہ ۱۰۵،مسئلہ ہندو تہوار ہولی یادیوالی میں اپنے اُستاد یاحاکم یانوکر کوکھیلیں (بھنے ہوئے چھلکے دار چاول جو پھول جاتے ہیں ۔ ہر وہ چیز جو بھن کر پھول جائے )یاپوری یا اور کچھ کھانابطور تحفہ بھیجتے ہیں ان چیزوں کالینا اور کھانا اُستاد و حاکم و نوکر مسلمان کودرست ہے یا نہیں ۔
الجواب ۔ درست ہے فقط
تنبیہ: ۔ مسلمانو! غور کر و۔
 علمائے دیوبند کے پیشوا مولوی رشید احمد صاحب باوجود یکہ محرم کے شربت ، دودھ وغیر ہ سب کو حرام بتارہے ہیں مگر ہولی اوردیوالی سے ایسا خاص تعلق ہے کہ اس کے ہرکھانے کو جائز اور درست فرمارہے ہیں اسی کانام ہے عقیدت ۔حضرت امام حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی طرف جو چیز منسوب ہوجائے وہ تو نادرست او ر حرام ہوجائے مگر ہولی دیوالی کی طرف نسبت کرنے سے کوئی خرابی نہ آئے جائز اور درست ہی رہے ۔جب نسبت دونوں جگہ موجودہے توہولی کے ہر کھانے کوجائز اوردرست کہنا اور محرم کے شربت اور دودھ کوبھی حرام بتانا یا توہولی دیوالی کی عقیدت کانشہ ہے ،یا حضرت امام حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی خصومت (دشمنی)کا غلبہ ہے ۔

بروز حشر شود ہمچوصبح معلومت     کہ باکہ باخئتہ عشق در شب دیجور
 (حشر کی صبح تجھے معلوم ہوجائے گا کہ اندھیری رات میں کس سے عشق لڑاتا رہا)

سوال نمبر ۱۶۔جو شخص صحابہ کرام رضوان اﷲتعالےٰ علیہم اجمعین کوکافر کہے وہ علماء دیوبند کے نزدیک سنت وجماعت سے خارج ہوگایا نہیں ۔
جواب ۔ صحابہ کوکافر کہنے والا علمائے دیوبند کے نزدیک سنت و جماعت سے خارج نہیں جیساکہ فتاویٰ رشیدیہ میں ہے ۔
حوالہ ۔فتاویٰ رشیدیہ حصّہ دوم صفحہ ۱۱۔ جو شخص صحابہ کرام میں سے کسی کی تکفیر(کفر کا حکم لگانا ۔ یعنی صحابہ کو کافر کہے) کرے وہ ملعون (اللہ تعالی کی رحمت سے دور ہے)ہے۔ ایسے شخص کو امام مسجد بنا نا حرام ہے اور وہ اپنے اس کبیرہ کے سبب سنت جماعت سے خارج نہ ہوگا ۔
تنبیہ ۔ کتب معتبرہ میں ائمہ تویہ تصریح(وضاحت) فرمائیں کہ ایسا شخص اہلسنت سے خارج بلکہ حضرات ابوبکر صدیق وعمرفاروق کی شان میں تبرا(نفرت کا اظہار کرنا ۔ گالیاں بکنا) کرنے والے کو فقہائے کرام نے کافر لکھا ۔ مگر گنگوہی صاحب کے نزدیک ایسا سخت تبّرا کرنے کے بعد بھی وہ سنی ہی رہتا ہے بعض عقیدت مند طرفداری میں یہ کہاکرتے ہیں کہ یہ کاتب کی غلطی ہے ہوگاکی جگہ نہ ہوگا لکھ دیا ہے ۔ مگر یہ محض غلط ہے اس لئے کہ فتاوی رشیدیہ کئی بار چھپا ہے مختلف مطبعوں میں طبع ہوا ہے۔ اگر کاتب کی غلطی ہوتی توایک چھاپے میں ہوتی دومیں ہوتی ہر چھاپے میں ہرکتاب میں یہی عبارت ہے علاوہ اس کے اس سے دوہی سطر پہلے صفحہ ۱۰ پر خود مولوی رشید احمد صاحب لکھ چکے ہیں کہ جو شخص حضرات صحابہ کی بے ادبی کرے وہ فاسق ہے فقط اور ظاہر بات ہے کہ صرف فاسق(گناہ گار) ہونے سے سنت جماعت سے خارج نہیں ہوتا توپھر کاتب کی غلطی کیسے ہوسکتی ہے؟مولوی رشید احمد صاحب کی پچھلی عبارت پکارکر کہہ رہی ہے کہ کاتب کی غلطی ہرگزنہیں بلکہ گنگوہی صاحب کا عقیدہ ہی ایساہے ۔
سوال نمبر ۱۷ ۔علماء کی توہین و تحقیر کرنے والا (حقیر جاننے والا)بھی علمائے دیوبند کے نزدیک سنت جماعت سے خارج ہوگایانہیں۔
جواب ۔علماء کی توہین کرنے والے کا سُنت جماعت سے ہونادرکنا ر ایسا شخص تو علماء دیوبند کے نزدیک مسلمان ہی نہیں کافر ہے چنانچہ فتاوی رشیدیہ میں ہے ۔
حوالہ نمبر ۱۷۔ فتاویٰ رشیدیہ حصہ سوم صفحہ ۱۶علماء کی توہین و تحقیر کو چونکہ علماء نے کفر لکھاہے جوبوجہ امرعلم اور دین کے ہو۔
فـائـدہ :۔یہ بات قابل غور ہے کہ صحابہ کی تکفیر کرنے والے کوکافر کہنا تو بڑی بات سُنت جماعت سے بھی خارج نہیں کرتے جیسا کہ حوالہ نمبر ۱۶ میں گزرا اور علماء کی توہین کرنے والے کو دائرہ اسلام سے خارج کرکے کافر کہتے ہیں آخر اس میں کیا حکمت ہے سوائے اس کے اور کیا کہاجاسکتاہے کہ اس میں اپنا بچاؤ مقصود ہے ۔چونکہ خود عالم ہیں ۔ لہٰذا اپنی توہین کا دروازہ بندکیا ہے صحابہ سے کیامطلب کیا غرض۔ ان کی چاہے کوئی کتنی ہی بے ادبی کرے، کافر کہے ،اپنا کیابگڑتا ہے ۔
سوال نمبر ۱۸۔بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ محفل میلاد شریف میں قیام تعظیمی ہوتا ہے اورغلط روایتیں پڑھی جاتی ہیں ۔ اس وجہ سے علمائے دیوبند محفل میلاد شریف کو ناجائز کہتے ہیں۔ورنہ اور کوئی وجہ نہیں ۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ ایسی مجلس میلاد منعقد کرنا جس میں صحیح روایتیں پڑھی جائیں اور قیام بھی نہ کیا جائے اور کوئی بھی خلاف شرع کام نہ ہو ۔ ایسی محفل میلاد شریف بھی علماء دیوبند کے نزدیک جائز ہے یانہیں ۔
جواب : مجلس میلاد میں اگرچہ کوئی بات خلاف شرع نہ ہو۔ قیام بھی نہ ہو روایتیں بھی صحیح پڑھی جائیں۔ تب بھی علمائے دیونبد کے نزدیک جائز نہیں اسکے ثبوت میں فتاویٰ رشیدیہ کا سوال وجواب ملاحظہ ہو ۔
حوالہ ۔فتاویٰ رشیدیہ حصہ دوم صفحہ ۸۳۔ سوال:انعقاد مجلس میلاد بدون قیام، روایت درست ہے یانہیں۔الجواب :انعقاد مجلس مولود ہر حال ناجائز ہے تداعی امر مندوب(جائز کام کے لئے بلانے کی وجہ سے) کے واسطے منع ہے ۔ فقط واﷲتعالےٰ اعلم ۔
فائدہ :۔ مجلس میلاد کو ہر حال ناجائز بتایا یعنی مطلقاً حرام ہے اس کے جائز ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں جبھی توکہاہر حال ناجائز ہے جودیوبندی مولوی بغیرقیام کے میلاد شریف کوجائز کہتے ہیں ان کوفتاوی رشیدیہ دکھاؤ اور پوچھوکہ تم نے اپنے پیشوا مولوی رشید احمد کے فتوے کے خلاف جائز کیوں کہا؟ ناجائز کہنے والا کون ہے تمہارے نزدیک اگرمولوی صاحب کافتوی صحیح ہے تواپنا حکم بتاؤ کہ تم نے جائز کو نا جائز لکھاہے ۔ بولوکیاکہتے ہو ؟بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو پھانسنا مقصود ہے ۔جہاں جیسا موقع دیکھا ویسا کہہ دیا کچھ بھی ہومسلمان دام میں پھنسے رہیں ۔
سوال نمبر ۱۹۔ نبی کریم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کیلئے علم غیب ماننا کیساہے اور ایسا عقیدہ رکھنے والے کا علمائے دیوبند کے نزدیک کیاحکم ہے ؟
جواب:نبی کریم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کے لئے علم غیب مانناشرک جلی(واضح شرک) ہے ایسا عقیدہ رکھنے والا علمائے دیوبند کے نزدیک بلاشبہہ مشرک ہے جیساکہ مولوی رشید احمد صاحب فرماتے ہیں ۔
حوالہ : فتاویٰ رشیدیہ حصہ دوم صفحہ ۱۰ ۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ کو (نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو) علم غیب تھا صریح شرک(کھلا شرک) ہے ۔فقط
فائدہ:۔مولوی اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب حفظ الایمان میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیلئے علم غیب ثابت کیا ہے بلکہ تھانوی صاحب تو بچوں ،پاگلوں اور تمام جانور وں کیلئے علم غیب ثابت کرتے ہیں۔اب اے دیوبندیو !بولو ،گنگوہی صاحب کے فتوے سے تھانوی صاحب کھلے مشرک ہیں یا نہیں؟
سوال نمبر ۲۰:یہ مشہور کوّاجوبستیوں میں پھرتا ہے ۔نجاست بھی کھاتاہے ۔عموماً مسلمان اس کو حرام جانتے ہیں مگر ہم نے سُنا ہے کہ علمائے دیوبند کے نزدیک حلال ہے ۔ اور اس کاکھانا جائز ہے ۔کیا یہ بات ٹھیک ہے ؟
جواب :دیوبندیوں کے نزدیک یہ کوّا بلاشبہ جائز ہے بلکہ بعض صورتوں میں تو علمائے دیوبند کے نزدیک اس کوّے کاکھانا ثواب ہے فتاویٰ رشیدیہ کاسوال وجواب ملاحظہ ہو۔
حوالہ ۔ فتاویٰ رشیدیہ حصہ دوم صفحہ ۱۴۵ ۔سوال۔ جس جگہ زاغ ِ معروفہ(مشہور کوّا یعنی جس پرندے کا نام لوگوں میں کوا مشہور ہے ۔) کو اکثر حرام جانتے ہوں اور کھانے والے کو بُرا کہتے ہوں ایسی جگہ اس کوّا کھانے والے کو کچھ ثواب ہوگا۔ یا نہ ثواب ہوگا نہ عذاب ۔ الجواب : ثواب ہو گا ۔فقط
فائدہ :۔ مولوی رشید احمد صاحب پیشوائے دیوبند نے تصریح فرمادی کہ کوّاکھا نا ثواب ہے مگر نہ معلوم بعض دیوبندی لوگ اس ثواب سے کیوں محروم ہیں اور یہ مفت کا ثواب کیوں چھوڑے ہوئے ہیں ؟ کار ثواب میں شرم نہیں چاہیے بلکہ باعلان کوّا کھا نا چاہے ۔ مفت میں ہم خرماوہم ثواب ، مرغ تو مباح ہی ہے مگر کوّا کھانے پر جب ثواب ملتا ہے تو علمائے دیوبند کی دعوت میں
کوّا ہی پیش کرنا چاہیئے تاکہ ہم خرماوہم ثواب (وہ کام جس میں لذت بھی ہو اور ثواب بھی۔)دونوں باتیں حاصل ہوں۔
سوال نمبر ۲۱: کیاکوئی ایسی کتاب ہے جس کا رکھنا اور پڑھنا اور اس پر عمل کرنا علماء دیوبند کے نزدیک عین اسلام اور باعث ثواب ہے ۔
جواب :ہاں وہ کتاب مولوی اسمٰعیل دہلوی کی تقویۃ الایمان ہے اس کارکھنا دیوبندی مذہب میں عین اسلام ہے جیسا کہ مولوی رشید احمد صاحب نے لکھا ہے
حوالہ : فتاوی رشیدیہ حصہ سوم صفحہ ۵۰ ۔ اس کا (یعنی تقویۃ الایمان کا ) رکھنا اور پڑھنا اور عمل کرناعین اسلام اورموجب اجر(ثواب کا باعث    ) کا ہے ۔
فائدہ : جب تقویۃ الایمان کا رکھنا اور پڑھنا عین اسلام ہے توضروری ہے کہ جس شخص نے تقویۃ الایمان نہ پڑھی اور جس نے اپنے پاس نہ رکھی وہ شخص اسلام سے خارج ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تقویۃ الایمان کے لکھنے اور چھپنے سے پہلے کوئی شخص بھی مسلمان نہ تھا اور چھپنے کے بعد بلکہ اسوقت بھی اگر اس معیار سے مسلمان کوجانچاجائے تو کم ازکم پچانوے فیصد مسلمان یقینا اسلام سے خارج ہوجائیں گے ۔
    مسلمانو ! مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی اس کھری متین (صاف بات)کو دیکھو کہ اہلسنت کو مشرک بناتے بناتے انہوں نے خود اپنے ہم مذہبوں کوبھی جن کے پاس تقویۃ الایمان نہیں ہے یا اس کتاب کو جن لوگوں نے پڑھا نہیں کافر کہنے لگے گنگوہی صاحب کے مذہب میں تقویۃ الایمان کا مرتبہ قرآن مجید سے زائد ٹھہرتا ہے ۔ مسلمان کے لئے یہ بے شک ضروری چیز ہے کہ قرآن مجید پرایمان لائے مگر اس کا رکھنا یا پڑھنا عین اسلام نہیں ۔ کیونکہ جس مسلمان کے گھر قرآن مجید نہیں یا جس نے قرآن نہیں پڑھا ہے وہ بھی مسلمان ہے مگر گنگوہی صاحب کے نزدیک جو تقویۃ الایمان نہیں رکھتا ہے اورنہیں پڑھتا ہے وہ مسلمان نہیں ۔ ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ۔
سوال نمبر ۲۲: علمائے دیوبند کے نزدیک وہابی کس کو کہتے ہیں ۔
جواب :اعلیٰ درجہ کے دین دار اور متبع سنت کو وہابی کہتے ہیں جیساکہ علمائے دیوبند کے پیشوا مولوی رشید احمد صاحب فرماتے ہیں ۔
حوالہ ۔ فتاویٰ رشیدیہ حصہ دوم صفحہ ۱۱۔ اس وقت اوران اطراف میں وہابی متبع سنت اور دیندار کو کہتے ہیں ۔
فائدہ: ۔ پھروہابی کہنے سے دیوبند ی کیوں چڑتے ہیں ۔ کیادین دار اور متبع سنت ہونا برامعلوم ہوتا ہے ۔
سوال نمبر ۲۳:ابن عبدالوہاب نجدی کے متعلق علمائے دیوبند کاکیاعقیدہ ہے اس کو کیسا جانتے ہیں ؟
جواب :بہت اچھا عمدہ آدمی متبع سنت عامل بالحدیث (احادیث مبارکہ پر عمل کرنے والا)تھا نہایت پابند شرع اعلیٰ درجہ کا مُبلغ شرک وبدعت کامٹانے والا علمائے دیوبند کے پیشوا مولوی رشید احمد نے اس نجدی (نجد عرب شریف کا علاقہ ہے نجد کارہنے والا نجدی کہلاتا ہے ۔ ابن عبد الوھاب کی پیروی کرنے والا وھابی نجدی کہلاتا ہے)کی بڑی تعریف کی ہے ملاحظہ ہو ۔
حوالہ ۔فتاویٰ رشیدیہ حصہ سوم صفحہ ۷۹ ۔سوال ۔عبدا لوہاب نجدی کیسے شخص تھے ۔ الجواب: محمد بن عبدالوہاب کو لوگ وہابی کہتے ہیں وہ اچھا آدمی تھا سُنا ہے کہ مذہب حنبلی رکھتا تھا اور عامل بالحدیث تھا ۔ بدعت وشرک سے روکتا تھا مگر تشدید(شدت ۔ سختی ۔) اس کے مزاج میں تھی واﷲتعالیٰ اعلم۔
فائدہ :۔علمائے دیوبند کے پیشوا مولوی رشید احمدصاحب نے نجدی وہابی کی تعریف کرکے ثابت کردیا اور ظاہر کردیا کہ علمائے دیوبند وہابی ہیں اور نجدی کے ہم عقیدہ ہیں نجدیوں کےجوعقائد ہیں وہی دیوبندیوں کے بھی عقیدے ہیں البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ نجدی حنبلی مذہب رکھتا تھا اور دیوبندی حنفی اور یہ فقط اعمال کافرق ہواعقائد میں دونوں ایک ہی ہیں۔
سوال نمبر ۲۴:علمائے دیوبند کے نزدیک مولوی اسمٰعیل دہلوی مصنف تقویۃ الایمان وصراط مستقیم کیسے شخص ہیں ؟
جواب :مولوی اسمٰعیل دہلوی اعلےٰ درجہ کے متقی، پرہیز گار، شہید،ولی اﷲتھے علمائے دیوبند کے نزدیک مولوی اسمٰعیل کی ولا یت قرآن مجید سے ثابت ہے چنانچہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے ۔
حوالہ ۔ فتاویٰ رشیدیہ حصہ سوم صفحہ ۴۹ ۔
 اِن ْ اَوْلیَاء ُ ہ اِلاَّ المُتَّقُون
(اس (اللہ عزوجل) کے اولیاء تو پرہیزگار ہی ہیں ۔( سورۃ الانفال ۔ ۳۴ ترجمہ کنز الایمان ))
 کوئی نہیں اولیاء حق تعالیٰ کاسوائے متقیوں کے بموجب اس آیت کے مولوی اسمٰعیل ولی ہوے اسکے بعد حدیث سے مولوی اسمٰعیل کی شہادت بھی ثابت کی ہے ۔
فائدہ: عقیدت اسی کو کہتے ہیں ۔قرآن وحدیث سے مولوی اسمٰعیل کوولی وشہید بناڈالا۔ مگر غوث پاک رضی اﷲتعالےٰ عنہ وغیرہ اولیائے کرام کے لئے کبھی ایسی تکلیف گوارہ نہ ہوئی ان کی گیارہویں اور فاتحہ کوبھی شرک وبدعت کہتے کہتے عمرگزار دی ۔
سوال نمبر ۲۵:جب علمائے دیوبند کے نزدیک مولوی اسمٰعیل دہلوی کی ولایت وشہادت قرآن مجید وحدیث سے ثابت ہے تو ان کے قول کو علمائے دیوبندبھی ضرور مانتے ہونگے ہم نے سناہے کہ مولوی اسمٰعیل دہلوی نے لکھاہے کہ نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاخیال آنا گدھے او ر بیل کے خیال میں ڈوب جانے سے بدرجہا بدتر ہے اور اس سے نمازی شرک کی طرف چلاجاتا ہے کیا یہ بات صحیح ہے اور مولوی اسمٰعیل نے کسی کتاب میں ایسا لکھا ہے؟
جواب ۔ مولوی اسمٰعیل کے قو ل کو مانناکیابلکہ ان کی کتابوں کا رکھنا ان پر عمل کرنا علمائے دیوبندکے نزدیک عین اسلام ہے جیسا کہ حوالہ نمبر ۲۱میں گزرا اور یہ بات صحیح ہے مولوی اسمٰعیل دہلوی نے اپنی کتاب صراط مستقیم میں لکھا ہے کہ نماز میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم )کا خیال لانا اپنے گدھے اور بیل کے خیال میں ڈوب جانے سے بدرجہابدتر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاخیال چونکہ تعظیم کے ساتھ آتا ہے لہٰذا شرک کی طرف کھینچ لے جاتا ہے ملاحظہ ہو ۔

حوالہ ۔صراط مستقیم صفحہ ۸۶۔صرف ہمت بسوی شیخ و امثال آں از معظمین گوجناب رسالت مآب باشند بچندیں مرتبہ بدتر انا مستغراق درصورت گاؤخرخوداست کے خیال آں باتعظیم وجلا ل بسویدائے د ل انسان می چپد۔ بخلاف خیال گاؤخرکہ نہ آن قدر سپید گی می بودنہ تعظیم ۔ بلکہ مہمان محقرمی بودوایں تعظیم وجلال غیر کے در نماز ملحوظ و مقصودمی شودبشرک می کشد
(اپنی ہمت کو شیخ اور ان جیسے معظم لوگوں خواہ جناب رسالتما ۤب  ہی ہوں ، کی طرف مبذول کرنا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے کئی گنا بدتر ہے ، کیونکہ ان کا خیال تعظیم اور اجلال کے ساتھ انسان کے دل کی گہرائی میں چسپاں ہوجاتا ہے بخلاف گدھے اوربیل کے خیال میں نہ تو اس قدر چسپیدگی ہوتی ہے اور نہ ہی تعظیم بلکہ ان کاخیال بے تعظیم اور حقیر ہوتا ہے اور یہ غیر کی تعظیم واجلال نماز میں ملحوظ ومقصود ہوتو شرک کی طرف کھینچ لیتی ہے)
سوال نمبر ۲۶۔جب علمائے دیوبند کے نزدیک مولوی اسمٰعیل دہلوی کاقول معتبر ہوا تو اب ان کے نزدیک نماز پڑھنے کی کیا صورت ہوگی؟ اسلئے کہ نماز میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر ہے اور تعظیم ہی کے ساتھ ہے نماز میں قرآن مجید پڑھنا فرض ہے اس میں بھی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعریف و توصیف اور ذکر ہے خاص کرالتحیات میں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پرسلام بھیجا جاتاہے اور شہادت پیش کی جاتی ہے اس وقت تو ضرور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خیال آتاہے تودیوبندی مذہب میں اور ہر اس شخص کے نزدیک جو اسمٰعیل دہلوی کو مانتاہے نماز پڑھنے کا کیا طریقہ ہوگا ؟آیا نماز کے درست ہونے کی کوئی صورت نکل سکتی ہے یا نہیں ۔
جواب ۔ واقعہ یونہی ہے کہ جب التحیات میں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم پرنمازی سلام بھیجے گا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رسالت کی شہادت دے گاتو یقینا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خیال ضرور نماز ی کے دل میں آئیگا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کوسلام کیاجائے او ر اس کا خیال دل میں نہ آوے بلکہ سلام کرنے سے پہلے ہی دل میں خیال آتاہے لہٰذا التحیات پڑھتے وقت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خیال آنا ضروری ہوا ۔ اب خیال کی دوہی صورتیں ہیں تعظیم کے ساتھ آئے گا یاتحقیر کے ساتھ اگر تعظیم کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خیال آیا تو بقول مولوی اسمٰعیل دہلوی شرک کی طرف کھینچ گیا ۔ کہاں کی نماز اور اگر حقارت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاخیال کیاتو یقینا کفر ہوا۔ پھرکیسی نماز ۔کیوں کہ نبی کی حقارت کفر ہے اب اس کفروشرک سے بچنے کے لئے تیسری صورت یہ ہے کہ التحیات ہی نہ پڑھے مگر مصیبت یہ ہے کہ التحیات پڑھنا نماز میں واجب ہے (یعنی وھابیوں کے لئے یہ انتہائی مصیبت کا مقام ہے کہ نماز میں التحیات پڑھنا واجب ہے ۔ کہ اس میں تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور وہ اس کے منکر ہیں)۔اور واجب کے قصداً ترک سے نماز پوری نہیں ہوتی ۔لہٰذا التحیات نہ پڑھنے سے بھی نماز پوری نہیں ہوگی خلاصہ یہ ہواکہ اسمٰعیل دہلوی کے اس قول کی بناپر نمازی التحیات پڑھے گا تو نماز نہیں ہوگی اور نہیں پڑھے گا تو نماز نہیں ہوگی اسمٰعیل کے ـمذہب پر نماز توکسی صورت میں ہوگی ہی نہیں البتہ فرق اتنا ہوگا کہ التحیات نہ پڑھنے کی صورت میں شاید کفر و شرک سے بچ جائے ۔
فائدہ:۔کیامزے کی بات ہے کہ کسی صورت میں نماز پوری نہیں ہوسکتی وجہ یہ ہے کہ ''صراط مستقیم '' کی اس ناپاک عبارت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخت توہین ہے ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خیال کوگدھے اور بیل کے خیال میں ڈوب جانے سے بدرجہابدتر بتایاہے اسی توہین کاوبال ہے کہ خواہ التحیات پڑھے یانہ پڑھے مگر نماز توکسی صورت میں پوری ہوتی ہی نہیں ۔
سوال نمبر ۲۷:ہم نے سُنا ہے کہ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کسی سے مراد مانگنے کواور کسی کے سامنے جھکنے کو کفر و شرک کہتے ہیں ۔ اسی طرح علی بخش حسین بخش عبدالنبی وغیر ہ نام رکھنے کوشرک و کفر بتاتے ہیں اور یہ کہ کسی کودور سے پُکار نا اور یہ سمجھناکہ اسے خبر ہوگئی اسکو بھی شر ک و کفر جانتے ہیں یوں کہنا کہ خدا اور رسول چاہے تو میرا کام ہوجائیگا اسے بھی کفر و شرک ہی کہتے ہیں کیایہ بات سچ ہے کیا واقعی مولوی اشرف علی صاحب ان باتوں کو کفر و شرک کہتے ہیں ۔ مسلمانوں کی اکثریت ان افعال و اقوال کی مرتکب ہے اگر تھانوی صاحب کے نزدیک یہ سب باتیں کفر وشرک ہیں تو انکے نزدیک ہندوستان کے کروڑوں مسلمان کافرومشرک ہیں ۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی اشرف علی صاحب اتنے بڑے عالم ان باتوں کو شرک بتاکر کروڑوں مُسلمانوں کو اسلام سے خارج کردیں ۔ لہٰذا صحیح واقعہ حوالہ کے ساتھ بیان کیاجائے۔
جواب : بلاشُبہ مولوی اشرف علی صاحب مراد مانگنے کوکسی کے سامنے جھکنے کو سہرا باندھنے کو علی بخش ۔حسین بخش ۔ عبدالنبی وغیرہ نام رکھنے کو کفر و شرک کہتے ہیں۔کسی کو دور سے پُکارنا اور یہ سمجھنا کہ اسے خبر ہوگئی ،یوں کہنا کہ خدا اور رسول چاہے تو فلاں کام ہوجائے گا ۔ ان سب باتوں کو تھانوی صاحب کفر و شرک ہی بتاتے ہیں چنانچہ اُنہوں نے اپنی کتاب ،بہشتی زیور کے پہلے حصہ میں ان میں سے ہرہربات کو کفروشرک لکھا ہے ۔ حوالہ ملاحظہ ہو۔
حوالہ: ۔بہشتی زیور حصّہ اول صفحہ ۴۵پر ہے۔ کفر وشرک کی باتوں کابیان۔ اسی میں ہے کسی کو دور سے پٖکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کو خبر ہوگئی ۔ کسی سے مراد یں مانگنا کسی کے سامنے جھکنا ۔
اسی میں صفحہ ۴۶پرہے سہراباندھنا ،علی بخش ،حسین بخش اور عبدالنبی وغیرہ نام رکھنایوں کہنا کہ خدا ورسول اگر چاہے تو فلاں کام ہوجاویگا ۔
فائدہ :۔ جب یہ سب باتیں کفر وشرک ہوئیں تو ان کے کرنے والے مولوی اشرف علی صاحب کے نزدیک کافر و مشرک ہوئے یعنی جس نے مراد مانگی وہ کافر و مشرک جوکسی کے سامنے جھک گیا ہو کافر و مشرک ، جس نے سہراباندھ لیا وہ کافر و مشرک جس نے علی بخش،حسین بخش ،عبدالنبی وغیرہ نام رکھا وہ کافر و مشرک جس نے یہ کہا کہ خدا اور رسول اگرچا ہے تو فلاں کام ہوجائے گا وہ کافر ومشرک۔
    مسلمانو!ذراغور کرو اور بتاؤ کہ یہ چھ باتیں جن کو تھانوی صاحب نے کفر وشرک لکھا ہے ان میں سے تم نے کوئی بات کی تونہیں اگر ان میں سے ایک بات بھی تم سے ہوئی ہے تو تھانوی صاحب کے نزدیک تم کافر ومشرک ہو۔تم چاہے کتنا ہی کہو کہ ہم مسلمان ہیں مگر تھانوی صاحب کا حکم ہے کہ تم کافر و مشرک ہی ہو میرے خیال میں اگر تھانوی صاحب کے اس معیار سے مسلمانوں کو جانچا جائے تو مشکل سے پانچ فیصد مسلمان نکلیں گے اور پچانوے فیصد مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہوکر کافر ومشرک ہوجائیں گے ۔ مولوی اشرف علی صاحب نے ان چیزوں کو کفر و شرک لکھ کر گویا مسلمانوں کو کافر بنانے کی مشین تیار کی ہے جس نے تقریباً پچانوے فیصدی مسلمانوں کوکافرو مشرک بنادیا ۔ تھانوی صاحب ذرا گھر کی خبر لیں اور اپنے بڑے پیشوا مولوی گنگوہی صاحب کانسب نامہ(خاندان کا شجرہ) دیکھیں تذکرہ الرشید ص ۱۳ میں گنگوہی صاحب کا پدری نسب نامہ(باپ کی طرف سے خاندانی شجرہ) یہ ہے ۔ رشید احمد بن ہدایت احمد بن پیر بخش بن غلام حسن بن غلام علی اور مادری نسب (ماں کی طرف سے ۔نانا ۔ نانی ۔پر نانا۔وغیر ہ)یہ ہے رشید احمد بن کریم النسابنت فرید بخش بن غلام قادر بن محمد صالح بن غلام محمد غور کیجئے کہ گنگوہی صاحب کے دادانا نا میں کتنے ایسے ہیں جوتھانوی صاحب کے حکم سے مشرک۔ اب خود ہی بتائیں کہ گنگوہی صاحب انکے نزدیک کیا ہیں ؟
        ''اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ''
اس بات سے تعجب تو ضرور ہوتاہے کہ مولوی اشرف علی صاحب نے ایسا کیوں کہا مگر جب ان کے عقیدہ کی طرف نظر کی جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں وہابیوں کاعقیدہ ہی یہ ہے کہ سوائے ان کی مختصر جماعت کے ساری دُنیا کے مسلمان ان کے نزدیک کافرو مشرک ہیں لہٰذایہ ان کے عقیدہ کامسئلہ ہے کہ وہ اپنی جماعت کے علاوہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو کافر و مشرک سمجھتے ہیں جیسا کہ علاّمہ شامی رحمۃ اﷲتعالےٰ علیہ نے فرمایا رد المختارجلد ۶ کتاب الجھاد باب البغاۃ

کماو قع فی زماننا فی اتباع عبدالوھاب الدین خرجو امن نجد وتغلبوا علی ٰالحرمین وکانوا ینتحلون مذھب الحنابلۃ لکنھم اعتقدو ا أنھم ھم المسلمون وان من خالف اعتقاد ھم مشرکون واستباحوا بذلک قتل أھل السنۃ وقتل علما ئھم حتی کسر اﷲتعالی شوکتھم وخرب بلادھم وظفر بھم عساکرالمسلمین عام ثلث وثلاثین مائتین والف ۔

یعنی جیسا ہمارے زمانہ میں عبدالوہاب کے متبعین میں واقع ہوا ، جونجد سے نکل کر حرمین شریف پر قابض ہوئے اور اپنے آپ کو حنبلی مذہب ظاہر کرتے تھے لیکن دراصل ان کا اعتقاد یہ تھا کہ مسلمان صرف وہی ہیں باقی سب مشرک ہیں اسی وجہ سے انہوں نے اہل سنت اور ان کے علماء کاقتل جائزسمجھا ۔یہاں تک کہ اﷲتعالیٰ نے ان کی شوکت توڑی اور ان کے شہرویران کئے اور اسلامی لشکروں کوان پر فتح دی ۱۲۲۳؁ ہجری میں۔
    علامہ شامی نے تصریح فرمادی کہ وہابیوں کاعقیدہ ہے کہ وہ اپنے سوا تمام دنیا کے مسلمانوں کو کافر ومشرک ہی جانتے ہیں او ر علمائے دیوبند نجدیوں وہابیوں کے ہم عقیدہ ہیں۔ چنانچہ علمائے دیوبندکے پیشوا مولوی رشید احمد صاحب نے اپنے فتاوی رشیدیہ میں محمد بن عبدالوہاب نجدی کی بہت تعریف کی ہے اسکو متبع سنت عامل بالحدیث شرک بدعت سے روکنے والالکھا ہے ملاحظہ ہو حوالہ نمبر ۲۳نتیجہ یہ نکلا کہ علمائے دیونبد اپنے سواساری دُنیاکے مُسلمانوں کو

کافر و مشرک جانتے ہیں اور انہیں نجدیوں کے ہم عقیدہ ہیں جو مسلمانان اہلسنت کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں اگر چہ اس وقت فریب دینے کے لئے اور مسلمانوں کو پھانسنے کیلئے اہل سنت بنتے ہیں اور اپنے کو اہلسنت لکھنے لگے مگر یہ فریب کاری کیسے کام آسکتی ہے مولوی رشید احمد صاحب نے نجدی کی تعریف کرکے ثابت کردیا کہ علماء دیوبند پکے وہابی اورنجدیوں کے ہم عقیدہ ہیں ہرگز اہلسنّت نہیں بلکہ اہلسنت کے دشمن ،ان کے خون کے پیاسے ہیں خدائے تعالی مسلمانوں کوتوفیق دے کہ وہ ان کے مکر سے بچیں اورجانیں کہ مسلمانوں کو کافر ومشرک کہنے والا کون ہے؟ اس سے کیا تعلق رکھنا چاہے ؟
فائـدہ: ۔ مولوی اشرف علی صاحب نے عبدالنبی نام رکھنے کو شرک کہا جس کاثبوت حوالہ نمبر ۲۷ میں گزرا ۔ اور ان کے پیر حاجی امداد اﷲصاحب مہاجر مکی رحمۃ اﷲتعالے علیہ شمائم امدادیہ میں فرماتے ہیں کہ عباداﷲکو عباد الرسول کہہ سکتے ہیں ۔
(اللہ کے بندوں کو رسول کا بندہ کہہ سکتے ہیں)
    جس سے صاف ظاہر ہے کہ عبدالنبی نام رکھنا جائز ہے یعنی جس کو تھانوی صاحب شرک کہہ رہے ہیں اسی کو ان کے پیر حاجی امداد اﷲصاحب جائز فرما رہے ہیں اگر حاجی اِمداد اﷲصاحب کا قول صحیح ہے تو عبدالنبی نام رکھنا جائز ہوا حالانکہ مولوی اشرف علی صاحب اسے شرک کہہ رہے ہیں ۔ مسلمانوبتاؤ !جائز کو شرک کہنے والا کون ہے؟اور اگر تھا نوی صاحب کا قول صحیح مانا جائے تو عبدالنبی نام رکھنا شرک ہوا اسی کوحاجی امداد اﷲصاحب جائز فرمارہے ہیں اب بتاؤ شرک کو جائزکہنے والا کون ہے ،پیرو مرید دونوں میں سے کسی ایک کاتو حکم بتاؤ ۔ کیابتاؤ گے یہ بدذات وہابیت کے کرشمے ہیں ساون کے اندھے (جو کیفیت ایک دفعہ نظر میں سما جائے وہی ہمیشہ پیش نظر رہتی ہے)کی طرح ہر چیز میں شرک ہی نظر آتا ہے ۔
سوال نمبر ۲۸ : نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جو اﷲ رب العزت نے بعض علم غیب عطا فرمایا توکیا ایسا علم غیب علمائے دیوبند کے نزدیک بچّوں ،پاگلوں جانوروں کوبھی حاصل ہے کیا علماء دیوبند میں سے کسی نے ایسالکھا ہے؟
جواب ۔علماء دیوبند کے نزدیک ایسا علم غیب تو ہر زید وعمرو بلکہ ہر بچے اور ہر پاگل اور تمام حیوانوں کوبھی حاصل ہے دیوبندیوں کے پیشوا مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنی حفظ الایمان میں لکھا ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔
حوالہ: حفظ الایمان صفحہ ۸۔پھریہ کہ آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کاحکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہوتودریافت طلب یہ امرہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل۔اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کیا تخصیص (خاصیت)ہے ایسا علم غیب تو زید و عمرو بلکہ ہر صبی (بچہ)ومجنون(پاگل) بلکہ جمیع حیوانات وبہائم (بلکہ تمام حیوانات اور درندوں)کے لئے بھی حاصل ہے۔
فائدہ:۔اس عبارت میں مولوی اشرف علی صاحب نے علم غیب کی دو قسمیں کیں، کل اور بعض، پھر کل کو بعد میں عقلاً ونقلاً باطل کیا اور نہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے کوئی کل مانتا ہے۔رہابعض علم غیب وہ یقینا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ہے اسی علمِ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پاگلوں اور جانور وں کے علم سے تشبیہ دی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخت توہین ہے ۔
    ان کے بعض عقیدت مندلوگ محض طرف داری میں کہہ دیا کرتے ہیں کہ عبارت میں نبی صلی اﷲتعالے علیہ وسلم کی توہین نہیں ہے مگریہ محض اشر ف علی صاحب کی کھلی طرفداری ہے اسلئے کہ اگر یہی عبارت مولوی اشرف علی صاحب کیلئے بول دی جائے اور کہاجائے کہ مولوی اشرف علی صاحب کی ذات پر علم کاحکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہوتو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس علم سے مراد بعض علم ہے کل ۔اگر بعض علوم مراد ہیں تو اس میں مولوی اشرف علی صاحب کی کیا تخصیص ہے ایسا علم تو زید وعمروبلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانا ت و بہائم کیلئے بھی حاصل ہے تو یقینا وہ طرف دارلوگ بھی جامہ سے باہر ہوجاتے ہیں(غصے میں آجاتے ہیں) اور کہ دیتے ہیں کہ اس میں مولوی اشرف علی صاحب کی توہین ہے حالاں کہ بالکل وہی عبارت ہے جو اشرف علی صاحب نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیلئے لکھی ہے صرف نام کا فرق ہے اور حفظ الایمان کی عبارت کی جس قد ر تاویلیں کی گئی ہیں وہ سب اس میں جاری ہیں مگر پھربھی کہتے ہیں کہ تھانوی صاحب کی توہین ہے مسلمانو!غور کرو جس عبارت میں مولوی اشرف علی صاحب کی توہین ہووہی عبارت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیلئے بولی جائے تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی توہین نہ ہو اسکا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ طرفدار لوگ اپنے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مرتبہ مولوی اشرف علی صاحب کے برابر بھی نہیں مانتے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ جس بات میں تھانوی صاحب کی توہین ہو اس میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی توہین نہ ہو غضب ہے حیرت ہے اس طرفداری کی کوئی اِنتہا ہے نبی کے مقابلہ میں تھانوی جی کی ایسی کھلی طرف داری۔

شعر :۔
بروز حشر شود ہمچوصبح معلومت                        کہ باکہ باختہ عشق در شب دیجور

مگر مولوی اشرف علی صاحب خوب سمجھتے ہیں کہ عبارت حفظ الایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی توہین ہے اسی وجہ سے آج تک علمائے اہلسنت کے مقابلہ میں مناظرہ کے لئے آنے تک کی بھی تاب نہ لا سکے شخصیت پرستی کے نشہ میں توبہ بھی میسّر نہ ہوئی ۔ عقیدت مند لوگ انکی طرفداری میں کچھ اُچھلے کودے(بہت غصہ ظاہر کرنا) مگر اس مقدمہ میں جان ہی نہیں۔ کریں تو کیا کریں ۔ اس لئے جہاں جاتے ہیں ذلیل ہوتے ہیں اور کیوں نہ ہو حفظ الایمان کی اس عبارت کا توہینِ رسول ہونا آفتاب سے زیادہ روشن ہے اس کی طرفداری میں جوکچھ کہاجائیگاوہ کفر کی حمایت ہے اور کفر کی حمایت میں سوائے ذلّت اور رسوائی کے اورکیا ہوسکتا ہے مولی تعالے توبہ کی توفیق دے۔
سوال نمبر ۲۹ ۔ کیاعلمائے دیوبند کے نزدیک اُمتی عمل میں نبی کے برابر ہوسکتا ہے ؟
جواب ۔ہاں علماء دیوبند کا یہی عقیدہ ہے کہ اُمتی عمل میں نبی کے برابر ہوسکتا ہے بلکہ نبی سے بڑھ سکتاہے ۔چنانچہ علمائے دیوبند کے پیشوابانی مدرسہ دیوبند مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی تحریر فرماتے ہیں
حوالـہ :۔ تحذیرالناس مصنفہ مولوی محمدقاسم صفحہ ۵۔ انبیاء اپنی اُمت سے اگر ممتاز ہوتے ہیں توعلوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں باقی رہا عمل اس میں بسا اوقات بظاہر اُمتی مساوی (برابر  ) ہوجاتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں ۔
فائـدہ:۔ مسلمانو! یہ ہے عقیدہ علمائے دیوبند کا۔عمل نبی کی اُمتی پرکوئی فصیلت نہیں مانتے ۔عمل میں نبی کو اُمتی کے برابر کر تے ہیں بلکہ بڑھاتے ہیں انہوں نے علم میں فضیلت دی تھی ۔ مگرتھانوی صاحب نے اسے بھی اڑادیا کہہ دیا کہ ایسا علم تو پاگلوں،جانوروں کوبھی ہے ملاحظہ ہوحوالہ نمبر ۲۸ ۔
سوال نمبر ۳۰ :۔علماء دیوبند کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاعلم زیادہ ہے یا شیطان کا۔حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاعلم قرآن وحدیث سے ثابت ہے یاشیطان علیہ اللعن کا(اس پر لعنت ہو
جواب ۔ علمائے دیوبند کے نزدیک حضور صلی اﷲتعالے علیہ وسلم کے علم سے شیطان کاعلم زیادہ ہے اور شیطان کے علم کی زیادتی قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وسعت علم(زیادتی علم) کے لئے ان کے نزدیک کوئی نص قطعی (قرآن پاک کی وہ آیت جس سے احکام مکمل واضح ہوں) نہیں چنانچہ مولوی خلیل احمد صاحب انبیٹھوی اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں ۔
حوالہ براہین قاطعہ ۔ مصنفہ مولوی خلیل احمد انبیٹھوی مصدقہ مولوی رشید احمد گنگوہی صفحہ ۵۱ الحاصل غور کرنا چاہیئے کہ شیطان و ملک الموت(موت کا فرشتہ عزرائیل علیہ السلام) کا حال دیکھ کہ علم محیط زمین (تمام زمین کا علم)کافخر عالم(سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلادلیل محض قیاس فاسدہ (اپنی غلط رائے)سے ثابت کرنا شرک نہیں توکون سا ایمان کا حصہ ہے شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی ۔ فخر عالم کی وسعت علم کی کونسی نص قطعی ہے جس سے تمام نصوص کورد کر کے ایک شر ک ثابت کرتاہے ۔
تنبیـہ :۔مسلمانو! غور کر و ۔مولوی خلیل احمد صاحب ومولوی رشید احمد صاحب پیشوائے علمائے دیوبند نے ساری زمین کا علم حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے تو شرک کہا۔ مگر اسی شرک کوشیطان کے لئے نہایت خوشی کے ساتھ نص سے ثابت مانا۔ شیطان مردود سے ایسی خوش عقید گی اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ایسی عداوت اسی عداوت نے توعقل کو رُخصت کردیا۔ یہ بھی سمجھ میں نہ آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے جس علم کاثابت کرناشرک ہے وہ شیطان کیلئے کیسے ایمان ہوسکتاہے اوروہ بھی نص سے یعنی قرآن و حدیث سے۔ کہیں قرآن و حدیث سے بھی شرک ثابت ہوتا ہے یہ شیطان سے عقیدت مندی ہے کہ اس کے علم کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم سے بڑھادیا ۔
    مسلمانو!انصاف کرواور بلارعایت کہوکیا اس میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی توہین نہیں ہے ؟ ہے اور ضرور ہے اور اگر کوئی طرف دار شخصیت پرست نہ مانے تو اسی کو کہو کہ تیرافلاں مولوی علم میں شیطان کے برابر ہے دیکھوجامہ سے باہر ہوجائیگا۔ حالانکہ اس کوبرابر ہی کہاہے اور اگرکسی دیوبندی مولوی کوشیطان کے مقابل گھٹادیا جائے تومعلوم نہیں کہاں تک نوبت پہنچے ۔مسلمانو ! شریعت مطہرہ کا حکم ہے کہ جس کسی نے مخلوق کوحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے علم میں زیادہ کہا وہ شخص کافر ہے شفا شریف کی شرح نسیم الریاض میں فرمایا(نسیم الریاض فی شرح الشفاء ۔القسم الرابع فی تعریف وجوہ الاحکام فیمن تنقصہ او سبہ ( الباب الاول فی بیان ماھو)من قال فلان اعلم منہ صلی اﷲتعالی علیہ وسلم فقد عابہ ونقص فھو ساب ۔

ترجمہ :۔جس کسی نے کہاکہ فلاں کونبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زیادہ علم ہے اس نے حضو رکو عیب لگایااور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تنقیص(شان گھٹانا) کی وہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گالیاں دیتاہے او ر ظاہر بات ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخت توہین ہے پھر اس کے کفر میں کیا شبہہ ہے؟
فائدہ
    مولوی مرتضی حسن دربھنگی نے اس کفری عبارت کی تاویل میں یہ کہا کہ اس عبارت میں جوحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے وسعت علم شرک بتائی ہے او ر جس علم کی نفی کی ہے وہ علم ذاتی ہے اور ذاتی علم حضو ر کے لئے ثابت کرنا شرک ہے ۔
    مگر افسوس کفرکی حمایت میں ان کی عقل ہی رُخصت ہوگئی۔ یہ بھی نہ سمجھے کہ علم ذاتی کی نفی کابہانہ تو اس وقت ہوسکتاتھا جب ان کے خصم (آقا۔بڑے)حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیلئے علم ذاتی ثابت کرتے جب کہ مقابل علم عطائی ثابت کررہاہے توذاتی کی نفی کرنا یقینا مجنون کی بڑ(بکواس)ہوگی اورمولوی خلیل احمد صاحب پاگل ٹھہریں گے۔
    نیز براہین قاطعہ کی یہ کفری عبارت پکارکر کہہ رہی ہے کہ جس قسم کاعلم شیطان کے لئے ثابت مانا ہے اسی قسم کے علم کی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نفی کی ہے لہذا اگر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے علم ذاتی کی نفی کی ہے تویقینا شیطان کیلئے علم ذاتی ماناجوکھلا ہوا شرک ہے اس میں مولوی خلیل احمد صاحب مشرک ٹھہرینگے۔غرضیکہ مولوی مرتضی حسن صاحب نے براہین قاطعہ کی اس عبارت میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے علم ذاتی کی نفی بتاکر براہین کے مصنف ومصدق (تصدیق کرنے والا)کو مجنون و مشرک بنادیا یہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی توہین کاوبال ہے کہ طرفداری کی جاتی ہے تب مجنون یا پاگل ضرورٹھہرتے ہیں خدا وند تعالے توبہ کی توفیق دے کہ کفر کی حمایت سے توبہ کریں اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مرتبہ کو پہچانیں اور جانیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مقابلہ میں کسی کی طرفداری کام نہ آئیگی ۔
     مولوی قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسہ دیوبند نے سارے انبیاء علیہم ا لسلام کو عمل میں گھٹایا اور اُمتیوں کو عمل میں انبیاء سے بڑھایاجیسا کہ حوالہ نمبر ۲۹ میں گزرا۔ اور مولوی خلیل احمد صاحب و مولوی رشید احمدصاحب نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے علم میں شیطان کو بڑھایاجس کا ثبوت حوالہ نمبر ۳۰ میں گزرا۔ خلاصہ یہ ہوا کہ علمائے دیوبند نے متفق ہوکر انبیاء علیہم السلام خصوصاً سید الانبیاء جناب محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوعلم اور عمل دونوں فضیلتوں میں امتی اورشیطان سے گھٹا یا ہے ۔ مسلمانو! آنکھیں کھولواور انصاف کرو اور علماء دیوبند کی حقیقت پہچانو۔ اگر تم کو اپنے رسول اپنے نبی ، اﷲکے محبوب جناب محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سچی محبت ہے تو اس پر مطلع ہونے کے بعد ان کے گستاخوں سے بیزاری و بے تعلقی اختیار کرو۔ اپنے نبی کی ایسی کھلی ہوئی توہین کرنے والے سے تعلق رکھنا یا اس کو اچھا کہنے والوں اس کے ماننے والوں سے علاقہ(تعلق، رشتہ) باقی رکھنا امتی کا کام نہیں ہوسکتا ۔ تم ہی فیصلہ کروکہ اتنی کھلی توہین کے بعد بھی اگر ایمانی غیرت نہ آئے اور گستاخ کی طرفداری اور حمایت میں بیجاتا ویلیں کی جائیں تو کیانبی سے عداوت اور دشمنی نہیں ہے واقعی ہے ایسے گستاخ کی طرفداری نبی کی دشمنی اور نبی کامقابلہ ہے۔ والعیاذباﷲتعالی ۔ (اللہ تعالی کی پناہ)
    بدمذہبوں بددینوں کے متعلق احکام شرعی مجلس علماء فیض الرسول براؤں شریف ضلع بستی(یـوپـی )
    ہر سُنّی مسلمان کومطلع کیا جاتاہے کہ دیوبندی مذہب کے بانی مولوی قاسم نانوتوی صاحب نے اپنی کتاب تحذیر الناس ( ص ۳ وص ۱۴ و ص ۲۸ ) میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا انکار کیا اور پیشوائے وہابیہ مولوی رشید احمدگنگوہی ومولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے براہین قاطعہ (ص ۵۱ ) میں سرکار مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم اقدس کوشیطان ملعون کے علم سے کم قرار دیا اور مبلغ وہابیہ مولوی اشرف علی تھانوی صاحب نے حفظ الایمان (ص۸)میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم غیب کو ہر خاص و عام انسان بچّوں پاگلوں او ر جانور وں کے علم غیب کی طرح بتایا چونکہ یہ باتیں یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوآخری نبی نہ ماننا یا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم کو شیطان کے علم سے کم بتانایاحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم کو بچوں یاپاگلوں اور جانوروں کے علم غیب کی طرح قرار دیناتمام پیشوا مولوی نانوتوی مولوی گنگوہی مولوی انبیٹھوی اور مولوی تھانوی صاحبان بحکم شریعت اسلامیہ کافر و مرتد ہوگئے فتاوی حسام الحرمین ص ۱۱۳ میں ہے وبا لحملۃ ھولاء الطوائف کلھم کفار مرتدون خارجون عن الاسلام باجماع المسلمین وقد قال فی البزازیۃ والدر والغرر والفتاوی الخیریہ ومجمع الانھر والدر المختار وغیرھا من معتمد ات الاسفار فی مثل ھؤلاء الکفار من شک فی کفرہ وعذابہ کفر خلاصہ کلام یہ ہے کہ طائفے (طائفہ کی جمع ۔گروہ)(یعنی مرزاغلا م احمد قادیانی ، قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوہی ، خلیل احمد ، اشرف علی تھانوی اور انکے ہم عقیدہ چیلے ) سب کے سب کافر ومرتد ہیں باجماعِ امت اسلام سے خارج ہیں اور بے شک بزازیہ ،در،غرر، فتاوی خیریہ ، مجمع الانہر اور درمختار وغیرہ معتمد (مستند ۔ قابل بھروسہ)کتابوں میں ایسے کافروں کے حق میں فرمایاہے کہ جوشخص انکے عقائد کفرپہ آگاہ ہو کر انکے کفر و عذاب میں شک کرے تو خود کافر ہے مکہ شریف کے عالم جلیل حضرت مولانا سید اسمعیل علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے فتوی میں تحریر فرماتے ہیں ۔ اما بعد فاقول ان ھوُلاء الفرق الواقعین فی السوال غلام احمد القادیانی ورشید احمد ومن تبعہ کخلیل الانبیتھی واشرفعلی وغیرھم لا شبھتم فی کفرھم بلا مجال بل لا مشبھتہ فیمن شک بل فیمن توقف فی کفرھم بحال من الاحوال

میں حمد وصلاۃ کے بعد کہتاہوں کہ یہ طائفے جن کاتذکرہ سوال میں واقع ہے غلام احمد قادیانی ، رشید احمد اور جواس کے پیروہوں جیسے خلیل احمد ،اشرفعلی وغیرہ ان کے کفرمیں کوئی شبہ نہیں نہ شک کی مجال بلکہ جو ان کے کفرمیں شک کرے بلکہ کسی طرح کسی حال میں انہیں کافر کہنے میں توقف کرے اس کے کفر میں بھی شبہ نہیں (حسام الحرمین ص ۱۲۰)
    غیر منقسم ہندوستان کے علمائے اسلام کے فتاوی کامجموعہ اَلصَّوَارمُ الھندیۃ ص ۷ میں ہے ان لوگوں (یعنی قادیانیوں ، وہابیوں ، دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنے، ان کے جنازہ کی نماز پڑھنے، ان کے ساتھ شادی بیا ہ کرنے ،ان کے ہاتھ کاذبح کیاہوا کھانے ،ان کے پاس بیٹھنے، ان سے بات چیت کرنے اور تمام معاملات میں انکا حکم بعینہ وہی ہے جو مرتد کا ہے یعنی یہ تمام باتیں سخت حرام گناہ ہیں۔
    اﷲتعالے قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے وَاِمَّایُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطنُ فَلَاتَقْعُدْ بَعْدَالذِکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّلِمیْن َ (سورۃ الانعام آیت ۶۸پ ۷) ترجمہ کنز الایمان: اور اگر تجھےشیطان بھلادے تویاد آجانے پرظالموں کے ساتھ نہ بیٹھو ۔خود سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔

    ان مرضوا فلاتعودوھم وان ماتوا فلا تشھدوھم وان لقیتم فلا تسلموا علیھم یعنی اگر( بدمذہب بددین )بیمار پڑیں تو ان کو پوچھنے نہ جاؤ اوراگر وہ مرجائیں توان کے جنازہ پر حاضرنہ ہو اور اگرانکا سامنا ہوتو سلام نہ کرو(سنن ابن ماجہ المقدمہ في اواخر باب القدر )
    ایک اور جگہ یوں فرمایا ولا تناکحوھم ولا تؤاکلو ھم ولا تشاربو ھم ولا تصلوا علیھم ولا تصلوا معھم ان سے شادی بیاہ نہ کرو ان کے ساتھ نہ کھاؤان کے ساتھ نہ پیو ان کے جنازہ کی نماز نہ پڑھو اور ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو ۔

 (کنزالعمال ،کتاب الفضائل، الفصل الاول فی الباب الثالث فی ذکر الصحابۃ وفضلھم ث)

    پھرچونکہ قادیانی ، وہابی ویوبندی ، غیرمقلد ، ندوی ،مودودی ، تبلیغی یہ سب کے سب بحکم شریعت اسلامیہ گمراہ ،بدعقیدہ، بددین ،بد مذہب ہیں اس حدیث و فقہ کے ارشاد کے مطابق اس شرعی دینی مسئلہ سے سب کوآگاہ کردیا جاتا ہے کہ قادیانیوں غیر مقلد وہابیوں ، وہابی دیوبندیوں ، مودودیوں وغیرہ بدمذہبوں کے پیچھے نماز پڑھنا سخت حرام ہے ان سے شادی بیاہ کارشتہ قائم کرنا اشد حرام ہے ان کے ساتھ نماز پڑھنا یا ان کے جناز ہ کی نماز پڑھنا سخت گناہ کبیرہ ہے ان سے اسلامی تعلقات قائم کرنا اپنے دین کو ہلاک اور ایمان کو برباد کرنا ہے جو ان باتوں کو مان کر ان پر عمل کریگا اسکے لئے نور ہے او رجونہیں مانے گا اسکے لئے نار (آگ یعنی جہنم)ہے والعیاذ باﷲتعالی۔
    جھوٹے ،مکار ،دغاباز، بدمذہب ،بددین خدا عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں توہین کرنے والے مرتدین براہ مکر وفریب،اتحاد واتفاق کاجھوٹا منافقانہ نعرہ بہت لگاتے ہیں اور زور سے لگاتے ہیں۔ اور جو متصلب(پختہ عقیدہ والا) مسلمان اپنے دین وایمان کو بچانے کیلئے ان سے الگ رہے اسکے سراختلاف وافتراق (جدائی)کاالزام تھوپتے ہیں جو مخلص مسلمان شرع کے روکنے کی وجہ سے ان بدمذہبو ں کے پیچھے نماز نہ پڑھے اسکو فسادی اور جھگڑالوبتاتے ہیں ۔جو صحیح العقیدہ مسلمان فتوی حسام الحرمین کے مطابق سید عالم صلی اﷲتعالے علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو کافر و مرتد کہے اسکو گالی بکنے والاقرار دیتے ہیں ایسے تمام صلح کلی(وہ شخص جو ہر مذہب وملت اور دوست ودشمن سے یکساں سلوک رکھے) منافقوں سے میرا مطالبہ ہے کہ اگر واقعی تم لوگ سُنی مسلمانوں سے اتحادواتفاق چاہتے ہو توسب سے پہلے بار گاہ الہی میں اپنے عقائد کفریہ وخیالات باطلہ سے سچی توبہ کرڈالو۔ خدا و رسول جل جلالہ ،وصلے اﷲتعالے علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے سے باز آجاؤ اور گستاخی کرنے والوں کی طرفداری اور حمایت سے الگ ہوجاؤ اور سچاسُنّی مذہب قبو ل کرلو۔ اگر ایسا کرلوتوتمہارے اورہمارے درمیان بالکل اتحادواتفاق ہوجائے گا اور اگر خدا نخواستہ تم اپنے اعتقادات کفریہ سے توبہ کرنے پر تیاّر نہیں، تم گستاخی کرنے اور لکھنے والے مولویوں سے رشتہ ختم نہیں کرسکتے ۔ سُنّی مذہب قبول کرنا تمہیں گوار ا نہیں تو ہم قرآن وحدیث کی تعلیمات حقّہ کو چھوڑکر بددینوں ، بدمذہبوں سے اتحاد نہیں کرسکتے رہا متصلب سُنّی مسلمان کوجھگڑالو،فسادی، گالی بکنے والا، کہنا تو یہ پُرانی دھاندلی اور زیادتی ہے ۔ گالی تو وہ بک رہا ہے جس نے تقویت الایمان لکھی جس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بڑابھائی بنایا جس نے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم اور دوسرے انبیائے کرام کو بارگاہ الہی میں ذرہ ناچیز سے بھی کم تراور چما ر(موچی ۔ کمینہ ۔ نیچ) سے بھی زیادہ ذلیل کہاگالی تووہ بک رہا ہے جس نے حفظ الایمان ص ۸ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم کو پاگلوں اورجانوروں چوپایوں کے علم غیب کی طرح ٹھہرایا بدزبانی تو وہ کررہا ہے جس نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم مقدس کوشیطان کے علم سے کم قرار دیا اصل جھگڑا لوتووہ ہے جس نے تحذیر الناس میں مسئلہ ختم نبوت کا انکار کیا اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوآخری نبی مانناعوام جاہلوں کاخیال بتایاواقعی فسادی تو وہ ہے جس نے براہین قاطعہ میں اﷲتعالی کے متعلق جھوٹ بول سکنے کانیاعقیدہ گھڑا اور جس نے اُردو زبان میں سرکار رسالت علیہ الصلاۃ والسلام کو علمائے دیوبند کا شاگرد بنایا ۔ سُنّی مسلمان نہ جھگڑا لو اور فسادی ہے نہ گالی بکنے والا وہ تو شریعت اسلامیہ کے حکم کے مطابق ان گستاخ مولویوں کوکافرومرتد کہتاہے جو بارگاہِ احدیت اور سرکار رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں گستاخی کرتے اور ضروریات دین کے منکرہیں ۔عقائد ضروریہ دینیہ کی مخالفت کرنے والوں کو کافر ومرتد کہنا ان کے حق میں منافق کالفظ استعـمال کرنا ہرگز ہرگز گالی نہیں ہے خود اﷲتعالے نے قرآن مجید میں کافر ، کفار ، مشرکین ، منافقین وغیرہ کلمات مخالفین اسلام کے حق میں ارشاد فرمایاہے توکیا کوئی بدنصیب اتنا کہنے کی جرات کرسکتاہے کہ قرآن عظیم نے گالی دی ہے ۔ معاذاﷲتعالی
    مسلمانو!وہابیوں دیوبندیوں سے تمہیں نہ حجت (بحث)کرنے کی ضرورت ہے نہ ان کا زق زق بق بق (الٹی سیدھی باتیں ۔بکواس)سننے کی حاجت ہے تم ا ن سے گالی گلوچ اور جھگڑا نہ کروبس تم ان کی صحبت سے دور ہو اپنے سے ان کو دور رکھو تمہارے آقانبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تمہیں یہی تعلیم دی ہے چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں ایاکم وایاھم لایضلونکم ولا یفتنونک (مسلم شریف جلد اول باب النھی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط في تحملھا) یعنی مسلمانو! تم بدمذہبوں کی محبت سے بچو ۔اپنے کو ان سے دور رکھو،نہیں تو وہ تمہیں سچے راستے سے بہکادیں گے اور تمہیں بددین بنادیں گے دعا ہے کہ اﷲتعالے ہمیں اور تمہیں سچی ہدایت پرقائم رکھے آمین
وصلی اﷲتعالی وسلم علی خیرخلقہ سیدنا محمدٍوالہ وصحبہ اجمعین واخر دعوانا ان الحمد ﷲرب العالمین ۔
 (اور اللہ ل اپنی مخلوق میں سب سے بہتر ہمارے سردار صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر رحمت اور سلامتی بھیجے اوران کی آل اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان پر اور ہماری دعا کا خاتمہ یہ ہے کہ تمام خوبیاں اللہ تعالی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔